23 اکتوبر 2024 - 11:18
شہادت، مقاومت اور بشارت قرآن کریم کی روشنی میں

رہبر انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے اغاز کی چالیسویں سالگرہ پر قرآن کریم کی تین آیات کریمہ سے استناد کیا جنہیں "شہادت، مقاومت اور بشارت" کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے دفاع مقدس کے آغاز کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر دفاع مقدس کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالتے ہوئے شہادت کے حوالے سے سورہ احزاب کی آیت 23، سورہ آل عمران کی آیت 170 اور سورہ فصلت کی آیت تیس سے استناد کیا۔

سورہ احزاب کی آیت 23

"مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا؛

ایمان والوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا، پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے [اور شہادت کر درجے پر فائز ہوئے] اور کچھ [شہادت کے] منتظر ہیں اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی"۔

سورہ آل عمران کی آیت 170

"فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ؛

اللہ نے اپنے فضل سے جو عطا فرمایا ہے اس پر خوش ہیں اور ان کے لئے بھی خوشی مناتے ہیں جو ابھی تک ان کے پیچھے ہیں اور ان کے پاس نہیں پہنچے ہیں، اس لئے کہ نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں"۔

سورہ فصلت کی آیت 30

"إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ؛

بے شک جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اپنے [اس کہنے پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں [اور ان سے کہتے ہیں] کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور جنت میں خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا"۔

تینون آیات کریمہ کا مشترکہ نقطہ راہ خدا میں مجاہدت و شہادت اور شہید کا بلند درجہ نیز شہداء کے لئے اللہ کی بشارت و خوشخبری ہے۔

تفسیر نمونہ میں ان آیات کے بارے میں مرقوم ہے:

سورہ احزاب کی آیت 23

اس آیت میں مؤمنین کے خاص گروہ کی طرف اشارہ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پیروی میں دوسروں سے بہت آگے تھے، اور اللہ کے ساتھ عہد و پیمان ـ یعنی قربانی دینے اور جانفشانی کرنے ـ پر اپنی زندگی کے آخری لمحے اور خون کے آخری قطرے تک قائم اور ثابت قدم رہے؛ منافقین یا ضعیف الایمان مؤمنین کے برعکس ـ جو واقعات کے طوفان میں ادھر ادھر جھکا کرتے ہیں، اور ہر روز کوئی نئی بری سوچ اپنے بے بس ذہن میں پروان چڑھاتے ہیں، یہ لوگ پہاڑ کی طرح ثابت قدم اور مضبوط، کھڑے رہے اور ثابت کرکے دکھایا کہ اللہ کے ساتھ ان کا کیا ہؤا عہاد کبھی بھی ٹوٹ نہیں سکتا۔

اس آیت کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ جس میں ہر زمانے اور ہر خطے کے تمام سچے مؤمنین شامل ہوتے ہیں؛ خواہ وہ جنہوں نے لباس شہادت زیب تن کیا خواہ وہ جہاد و شہادت کے منتظر ہیں۔

سورہ آل عمران کی آیت 170

یہ آیت کریمہ شہداء کی برزخی زندگی کی بے پناہ برکتوں اور رعایتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ارشاد ہوتا ہے: "وہ اس پر، جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں عطا فرمایا ہے، اس پر خوش ہیں"۔

ان کی دوسری خوشی ان کے مجاہد بھائیوں کے لئے ہے جو میدان جنگ میں شہید نہیں ہوئے ہیں، اور ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ وہ ان [آنے والے] مجاہدین کے مدارج و مقامات اور انعامات کو بخوبی دیکھتے ہیں اور مستبشر اور خوش ہوجاتے ہیں۔

بعدازاں ارشاد ہؤا ہے کہ ان کے مجاہد بھائی، ان چیزوں کے لئے ہرگز مغموم نہیں ہیں جو وہ دنیا میں چھوڑ آئے ہیں اور روز قیامت اور اس خوفناک واقعات سے بھی ہرگز خوفزدہ نہیں ہیں،  "أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (اس لئے کہ نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں)"۔ ممکن ہے کہ اس آیت کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شہداء نہ صرف اپنے شہید نہ ہونے والے ساتھیوں کے مقامات و ممدارج دیکھ کر خوش ہوتے ہیں بلکہ وہ خود بھی دنیاوی زندگی کے حوالے سے ہرگز مغموم نہیں ہیں اور مستقبل سے بھی ہرگز خائف نہیں ہيں۔

سورہ فصلت کی آیت 30

ہم جانتے ہیں کہ ان مسائل کے بیان کے لئے قرآن کریم کی روش یہ ہے کہ متضاد امور کو ایک دوسرے کے سامنے قرار دیتا ہے تاکہ قاری کے ساتھ ان کی حالت اور پوزیشن بالکل واضح و عیاں ہو جائے، اور چونکہ سابقہ آیات میں ہٹ دھرم منکرین کا تذکرہ آیا تھا، جو کفر پر اصرار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں مختلف سزاؤوں اور عذابوں سے دھمکاتا ہے، اس آیت کریمہ میں ان مؤمنوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جو اپنے ایمان میں راسخ اور ثابت قدم ہیں اور خدائے متعال نے ان ساتھ انعامات اور بخششوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کا اس نے انہیں وعدہ دیا ہے؛ جو کہ غالبا ماقبل کی آیات میں مذکورہ سزاؤں کی وعید کے برعکس ہے۔

ابتداء میں فرماتا ہے: وہ جو کہتے ہیں اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے، اور پھر اپنے کہے پر ثابت قدمی دکھاتے ہیں، اور ذرہ برابر بھی منحرف نہیں ہوتے اور جو کچھ اس عہدے کو لوازمات ہیں انہیں زبان اور کردار سے ثابت کرتے دکھاتے ہیں، اور یوں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو ان سے کہتے ہیں "تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور جنت میں خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا"۔

یہ انتہائی جامع اور دلچسپ بیان ہے جو در حقیقت تمام نیکیوں اور نمایاں صفات پر مشتمل ہے؛ اول، اپنا دل اللہ سے جوڑنا، اور پھر پوری زندگی کو ایمان سے مالامال کرنا اور ایمان کے محور و مدار میں قر دینا۔

بہت ہیں ایسے جو اللہ کے عشق کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ثابت قدم نہیں ہیں۔ وہ کاہل اور بے بس لوگ ہیں کہ جب شہوتوں کے طوفان میں گھر جاتے ہیں ایمان سے وداع کرتے ہیں اور عملی طور پر مشرک بن جاتے ہیں اور جب ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، تو وہ اپنا مختصر سا اور ذرہ برابر ایمان بھی کھو ڈالتے ہیں۔

مختصر یہ کہ انسان کی قدر و قیمت ایمان اور عمل صالح پر منحصر ہے۔ اس مسئلے کی عکاسی "الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا" میں ہوئی ہے۔

مذکورہ آیات سے ذیل کے نکات اور پیغامات اخذ کئے جا سکتے ہیں:

- حق کا دفاع، شہادت کی سرحد تک، ایمان میں صداقت کی علامت ہے۔

- شہادت کا انتظار بھی، ایک قدر (Value) ہے۔

ـ بعض مؤمنوں کی شہادت مؤمنین کی پسپائی اور مایوسی کا سبب نہیں بنتی۔

ـ حقیقی مؤمنین اللہ کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کے پابند اور وفادار ہیں اور کوئی بھی چیز ـ حتی کہ دوستوں اور عزیزوں کی شہادت ـ ان حوصلوں کو پست نہیں کرتی۔

ـ شہداء ـ جو خوش ہیں تو ـ ان کی خوشی ان کی اپنی کارکردگی سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل و لطف کی بنا پر ہے۔

- شہداء اللہ کی نعمتوں اور الطاف کو اپنے خون کی جزا نہیں بلکہ اللہ کا فضل سمجھتے ہیں۔

- شہداء اپنے ساتھی مجاہدین کو بھولتے نہیں ہیں اور انہیں اچھے مستقبل کی خوشخبری دیتے ہیں۔

- شہداء کی زندگی اجتماعی ہے، وہ ایک دوسرے سے جا ملتے ہیں اور دوسروں کا انتظار کرتے ہیں۔

- دوسروں کی سعادت و فلاح کا اشتیاق اور قافلۂ عزت و شرف میں ان کی شمولیت کی آرزو، ایک قدر ہے۔

- شہداء کی کامرانی دائمی اور ابدی ہے اور انہیں کسی نعمت کے کھوجانے کا غم نہیں ہے۔

- جو چیز ایمان کو بارآور بناتی ہے اور نتیجے تک پہنچاتی ہے وہ صرف اور صرف ظلم و جبر کے خلاف جہاد و مقاومت ہے۔

ـ استقامت اور ایمان کے ساتھ ہو تو یہ ایک قدر ہے ورنہ تو کفار بھی اپنے باطل تصورات پر استقامت کرتے ہیں۔

- انسان ایمان کی برکت سے فرشتوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے۔

ـ راہ حق میں مقاومت و مزاحمت آنے والے خوف کو بھی زائل کرتی اور ماضی کے واقعات کا غم بھی مٹا دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110